سوز نامہ شمارہ ١٣


سلام! اس امید کے ساتھ کہ عالمِ قلب میں خوشیوں کی بہار بسیرا کیے ہوگی اور باہر کی تلخیاں اندر گھر کرنے میں ناکام ٹھہریں گی۔ اس خط میں دیری کی وجوہات میں سے ایک فیض کے نام ہونے والا فیسٹیول ہے اور وہاں لگنے والا سوز کا اسٹال۔ چلو پہلے سوز کے اسٹال کو دیکھتے جاتے ہیں۔ وہاں تمھیں اخبار سا دکھنے والا سوز نامہ دیکھائی دے گا۔ پچھلا خط یاد ہے اور اس میں ہماری اردو پر ہونے والی بات؟ سو خوشخبری یہ ہے کہ اس کام کا آغاز ہو چکا، یادِ رفتگاں اور روایت شکن سے لے کر سوزِ لغت تک اس پہلے شمارے میں تمھارے لیے بہت کچھ شامل کیا ہے۔ فیض فیسٹیول پر تو ہر آنے والے کو ملا ہی لیکن آئندہ اب سوز سے خریداری کرنے پر ہر ایک کے سنگ جائے گا، وہ پڑھنا اور اپنی رائے بھی بتانا۔


اس مرتبہ جنوری کی سردی ہڈیاں جما دینے والی تھی البتہ ہم سوز کی اتنے جوش و خروش سے ہُڈیز مقابلے میں شرکت نے ہمارا تو خون گرما دیا۔ اور مقابلہ جیتنے والیں سعدیہ دلاذک اور زویہ شاہد کے لیے انعام کے ساتھ  ڈھیروں مبارک۔


ہم سوز کی تخلیقی صلاحیتوں کو جگانے کے لیے اب ایسے مقابلے ہوتے رہیں گے، انشا اللہ۔ اس کے علاوہ سوز کے حوالے سے ایک اور خوشخبری یہ کہ اپنے ہمسفروں کو دینے کیلئے سوز نے ہمدم باکس اور نکاح باکس بھی لاؤنچ کیا ہے۔



فیسٹیول کی بات ہو اور وہاں پر ہونے والی یادگار محفل مشاعرہ کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ اور کیوں نہ آج کے خط میں خط و خطابت کی بجائے مشاعرے کا ہی لطف اٹھایا جائے۔ سو فیض فیسٹیول کے مشاعرے کا نقشہ کھینچ کر وہاں کے چیدہ چیدہ لمحات کو دوبارہ جی لیتے ہیں (اور نہ آنے والوں کا دل جلائے جاتے ہیں.)



سو قصہ یوں ہے کہ زندہ دلوں کے شہر میں ہوا ایک مشاعرہ۔ نظر آتے ہیں ہر طور کے لوگ، اور میں ہوں ایک انہی کے سنگ۔ اپنے عہد کے بڑے شعراء کو دیکھ کر اپنی خوبئ قسمت پر ناز ہوا جاتا ہے اور ان شعراء میں صدرِ مشاعرہ زہرہ نگاہ کے علاوہ افتخار عارف، انور شعور، عباس تابش، سرمد صحبائی وغیرہ سامنے نشستوں پر بیٹھے دیکھائی دیتے ہیں۔ ہال نمبر 1 کھچا کھچا شائقین سے بھرا اور حالِ دل خوشی سے بیتاب ہوا جاتا ہے۔ اور پھر ہوا مشاعرے کا آغاز۔ بھارت سے آئے اروندر چمک نے سرحدوں کو عبور کرتی محبتوں کا پیغام دیا، ان کا کلام اب کچھ یاد نہیں کہ جوانی میں ہی یاداشت نے ناجانے ساتھ دینا کیوں چھوڑ دیا ہے، ورنہ بیان کرتے چلے جاتے۔ محسن شکیل کی غزل کا یہ شعر ان کے اندازِ کلام کو خوبی سے بیان کرتا ہے کہ:



آنکھوں میں ایک خواب نے مجھ سے کیا سخن

باہر تمہاری آنکھ سے آیا تو میں گیا



اور حماد غزنوی نے مجھ سمت دیگر شائقین کے دل موہ لیے۔ کچھ اشعار تم بھی دیکھو کہ



کوئی مشعل بجھی ہے خوابوں کی

کچھ دھواں سا ہے دم بدم درپیش

ننھے ہاتھ اٹھ گئے دعا کے لیے

آج پھر لوح کو قلم درپیش


یاداشت پر زور ڈالوں تو ان کے بعد عباس تابش کا چہرہ ذہن کے پردے پر اور ان کے شوخ اندازِ بیان کا نشان دل پر دیکھائی دیتا ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر ایسے اشعار کہ واہ کے ساتھ آہ بھی نکلتی تھی، فرماتے ہیں:



"اب اتنا ہم مزاجِ غم یار کون ہے

میری طرح کا اور طرحدار کون ہے

تاریخ ہے تو وہ بھی تمہاری لکھی ہوئی

اب تم بتاؤ گے ہمیں غدار کون ہے

اندازہ مت لگائیے بس بیٹھ جائیے

خوشبو بتائے گی پسِ دیوار کون ہے"



اور جوانوں کے جذبات کی ایسی ترجمانی کہ ہال میں مسکراہٹیں سی بکھری چلی جاتی تھیں۔



"میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہو سکتا

دل پکارا کہ خبردار نہیں ہو سکتا

جس سے پوچھیں تیرے بارے میں یہی کہتا ہے

خوبصورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا"


اور جب سرمد صہبائی کی باری آئی تو ہم دم باخود کبھی ان کو سنتے اور کبھی اپنی دھڑکنوں کو۔ بولنا ایسا کہ سب بولنے والے زبان تھامے انہیں سنتے دیکھائی دیں اور جب وہ خاموش ہوں تو داد و تحسین کی گونج میں اپنی آواز بھی کانوں کو سنائی نہ دے۔ لو کچھ شعر بھی پڑھتے چلو کہ



"دشت میں ہے ایک نقشِ راہ گزر سب سے الگ

ہم میں ہے شاید کوئی محوِ سفر سب سے الگ

چلتے چلتے وہ بھی آخر بھیڑ میں گم ہو گیا

وہ جو ہر صورت میں آتا تھا نظر سب سے الگ

سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے

ایک آوارہ پھرے ہم در بدر سب سے الگ

ایک انہونے سمے کو اوڑھ کر آتی ہے شام

ان دریچوں پر اترتی ہے سحر سب سے الگ

اے رہ و رسمِ زمانہ پردۂ بیگانگی

درمیان رہتا ہوں میں سب کے مگر سب سے الگ

ان گنت جلووں سے ہے کون و مکاں روشن مگر

دل کے خاکستر سے اُڑتا ہے شرر سب سے الگ"


پیرذادہ قاسم نے بھی کچھ اشعار ملک کو چلانے والی پوشیدہ طاقتوں اور پتلیوں کی طرح استعمال ہوتی عوام پر کہے، اور سننے والوں نے بجا طور پر انہیں داد سے نوازا۔ ابھی کچھ دو ایک اشعار ہی یاد پڑتے ہیں، تم بھی انہی کا لطف اٹھاؤ۔



"جس طرف نظر کیجے وحشتوں کا ساماں ہے

زندگی ہی کیا اب تو خواب بھی پریشاں ہے

اے ہوائے غم تو نے سب دیے بجھا ڈالے

پھر بھی خلوتِ جاں میں دور تک چراغاں ہے

میں ہوں جب تلک باقی یہ مکالمہ ہوگا

اے حقیقتِ ہستی میرا نام انساں ہے"



آخر میں ایک غزل گا کر ترنم سے پڑھی اور بخدا یوں محسوس ہوا کہ  کیا حسیں وقت ہے کیا حسیں لوگ ہیں! اور اس گزرتے وقت میں اب کیا خبر ایسے لوگ پھر میسر آئیں، نہ آئیں۔



اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں



اس مشہور شعر کے لکھنے والے انور شعور اپنے دبلے پتلے کانپتے ہاتھوں سے کچھ صفحات پکڑے اشعار پڑھنا شروع ہوئے تو چہروں پر مسکراہٹوں اور ہال میں قہقہوں نے جگہ بنا لی۔ چلو کچھ مطلعے اور مقطعے سنو۔


"سامنے آ کر وہ کیا رہنے لگا

دل کا دروازہ کھلا رہنے لگا


خورشید جہاں تاب نہیں چیزِ دگر ہے

یہ داغِ جگر داغِ جگر داغِ جگر ہے


کیا کریں ہم جھوٹ کے عادی نہیں

اور سچ کہنے کی آزادی نہیں



اس تعلق میں کہاں ممکن طلاق

یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں


اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ



کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے نہاں ہر بات میں

کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں سبھی اپنی جگہ



اور بقول انہی کے یہ مقطعوں کا مقطع عرض ہے:

ملی نہیں ہے شرابِ طہور کچھ دن سے

بہت اداس ہے انور شعورٓ کچھ دن سے


اب افتخار عارف سے جو کلام کی فرمائش ہوئی تو زہرہ نگاہ کہنے لگیں کہ جناب پہلے مجھ سے سن لجیے کہ ان کے کلام کے بعد تو کوئی کلام سننے کے قابل نہیں رہتا لیکن افتخار عارف نے یہ کہہ کر اشعار کا آغاز کر دیا کہ آپ تو صدرِ مشاعرہ میں، بجو آپ سے تو آخر میں ہی سنیں گی۔



"پسِ گردِ جادائے درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے

جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی

کبھی راویانِ خبر زدہ پس واقعہ بھی تو دیکھتے"



اس شعر پر سننے والوں کی داد و تحسین اور مکرر کی صدائیں بلند ہوئیں۔



"میں تو خاک تھا کسی چشم ناز میں آگیا ہوں تو مہر ہوں

میرے مہرباں کبھی اک نظر میرا سلسلہ بھی تو دیکھتے"



اور یہ اگلے اشعار بھی دیکھو، کسی دل کی آہ سے کم نہیں کہ دلوں پر خوب اثر کرتے ہیں۔



"سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

صبر پر داد شجاعت نہیں ملنے والی

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی"



اور اسی پر آخری روز ہونے والی ایک گفتگو بھی یاد آتی ہے، جس میں افتخار عارف سے سوال پوچھا گیا کہ آج کل کے حالات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ


"شاعر شاعری میں عام طور پر اُمید دلانے کی خاطر یوں تو کہہ دیتے ہیں کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے لیکن میں نے جس طرح کی زندگی شروع کی تھی، انفرادی طور پر بظاہر تو میں کامیاب بندہ ہوں لیکن میں نے جیسا معاشرہ شروع کیا تھا یہ اس سے بہت خراب ہے۔ اور کہیں سے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔۔۔۔اور ایک لمبے عرصے سے مجھ سے کوئی شعر بھی نہیں کہا گیا، کہا ہی نہیں جاتا۔"


حالات ایسے ہیں لیکن دل پھر یہی کہتا ہے کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔


اور اب کوئی ساڑھے آٹھ کا وقت ہوا جاتا تھا، آخری شاعرہ زہرہ نگاہ نے چند اشعار پڑھے، کچھ قصے سنائے اور آخر پر فرمائش پہ یہ نظم پڑھی، جو میرے دل کی بھی فرمائش تھی۔ اور اس نظم کے ساتھ ہی اپنے اس مشاعرہ نما خط کو ختم کرتے ہیں، اس یادہانی کے ساتھ کے حالات کی سیاہی کا مقابلہ کرنا عین فرض ہے، چاپے وہ شمشیر کی نوک سے ہو یا مؤقلم سے!



" سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا

درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے

ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں

تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر

کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے

سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے

سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں

بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے

تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں

کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو

کسی لکڑی کے تختے پر

گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!

مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر! "


چلو، اگلی ملاقات تک کے لیے خدا کی پناہ میں رہو، جواب کا انتظار رہے گا۔


آپ کا سوز