سوز نامہ شمارہ ١٤
سلام، امید ہے کہ بادِ نو بہار تمہارے گلوں میں رنگ بھرتی، تمہارے گلشنِ زندگی کا کاروبار خوب چلا رہی ہوگی۔ یہ مہینہ بہار کے نام، تصویرِ کائنات میں رنگ بھرتی عورت کے نام اور اس سب سے بڑھ کر ماہِ رمضان کے نام۔
سب سے پہلے ہم سوز کو یہ ماہِ تاباں اور اس کی رونقیں مبارک ہوں، سوز اور سوز والوں کو دعاؤوں میں یاد رکھنا۔ کچھ بات ماہِ مبارک کی ہو جائے، تو پھر تم بتاؤ کہ کیا تیاری ہے؟ حاصل کیا کرنا ہے اور کیا لیے نکلنا ہے اس مہینے سے؟ ہدف کیا ہیں اور اس کے حصول کی خاطر جستجو کیا ہے؟ کیوں کہ اگر اپنا بتاؤں تو دل میں بہار کا سماں ہے کہ رمضان کی آمد ہے کہ موقع ایک اور ملا ہے، خشوع سے یہ ماہ گزارنے اور تقویٰ لیے اس سے نکلنے کا کیونکہ بغیر اس نور کے یہ راہِ زندگی اندھیر ہے اور راہبر کوئی نہیں۔ سو تم اپنا حال احوال لکھ بھیجنا مت بھولنا۔
علاوہ اس کے یہ مہینہ ہے اس کا جس کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اس وجودِ زن کو ادب میں بھی بہت سے رنگوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی صدیوں کی شاعری میں مسلسل ایک محبوب کی صورت، سنگ دل اور بے مہر۔ اسی سے عورت کی تخلیق کی ایک داستان بھی یاد پڑتی ہے۔ صدیوں پرانی ایک سنسکرت کی نظم اور اس کا اردو میں ترجمہ، خاص کر ضیا محی الدین کی زبانی۔ کچھ حصہ تم بھی پڑھتے چلو اور 'عورت کی خلقت ازروئے تمثیل' ضیا صاحب کی زبانی سننا مت بھولنا۔
" ہندی شاعروں نے عورت کی خِلقت کا قصہ اِس طرح لکھا ہے کہ آغازِ آفرینش میں خلّاقِ دوعالم نے جب عورت کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا سارا مسالہ مرد کے پیدا کرنے میں کام آ گیا۔ عورت کے بنانے کے لیے عالمِ ایجاد میں کوئی چیز اعتبار کے لائق نہ رہی۔ بڑے غور و تامُل کے بعد یہ تدبیر کارپردازانِ ازل کے ذہن میں آئی کہ چہرے کی شکل تو چاند سے لی جائے اور خَمِ ابرو ہِلال سے اور برگِ گُل سے ہونٹ، نرگسِ شہلا سے آنکھ لے لی جائے۔ درازیِ شبِ ہجراں سے بالوں کی درازی لے لی جائے۔ یاقوت سے ہونٹوں کی سرخی، پتھر سے سنگ دلی، ماتھے کی چمک کندن سےاور دانتوں کی دمک موتیوں سے لے لیں، اور دیکھتے رہو کہ برگِ گُل پر جب قطرہِ شبنم نسیمِ سَحر سے جُنبِش میں آئے اُس وقت اس کے دل کے دھڑکنے کی تصویر کھینچ لینا۔ کبھی بھولے بھٹکے کی رسمِ وفا چکوے چکوی سے مانگ لو۔ زلف کو پریشان اور آئینہِ رخسار کو درخشاں بنا دینا، لڑکپن کی اٹکھیلیاں بلی کے اُن بچوں سے جو پنجوں میں ناخُن چھپانا نکالنا سیکھ گئے ہوں لے لینا اور خود اپنے بچوں کی حفاظت میں جان پر کھیلنے کے تیورشیرنی سے لے لو۔۔۔۔ "
ارے کیا کہنے! اب اس میں اگر کچھ مطلب سمجھ نہ آئیں تو ہچکچنا مت، گوگل میاں پر ایک بار لکھنا، سب سمجھا دے گا۔
پھر اقبال اور اکبر الہ آبادی جیسے شعراء کے یہاں عورت بحیثیت ماں، بیوی اور کسی شے سے بڑھ کر ایک جیتے جاگتے انسان کے طور پر ملتی ہے۔ وقت کی بدلتی روایات میں عورت کے بدلتے کردار اور اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر بھی کمال خوبی سے ملتا ہے۔ یہ مہینہ آذادیٔ نسواں کا بھی ہے، سو کیوں نا اقبال کی نظم 'آذادیٔ نسواں' بھی پڑھی جائے:
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند
کیا فائدہ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
(معتوب: ناراضگی کا نشانہ)
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
(خرد مند: عقل والا)
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کہ زمرد کا گلوبند
(گلو بند: زیور)
اور پھر بیسویں صدی کے اواخر میں عورت کو فہمیدہ ریاض، ادا جعفری اور پروین شاکر جیسی بہت ساری دوسری شعراء کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اور ان سب کی نمائندگی حنا رضوی کے یہ اشعار بہت خوبی سے کرتے ہیں:
غنچہ و گل سے بھی کب چاہیے تشبیہ مجھے
حسنِ سیرت سے میرے دیجیے ترجیح مجھے
میری زلفوں، میرے کاجل کی نہ باتیں کریے
میرے کچھ ذوق و ذہانت کو بھی اچھا کہیے
سو ہاں عورت ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتی رہی ہے، کبھی کسی روپ میں اور کبھی کسی اور۔ خواتینِ سوز کی جانب سے تمام ہم سوز پیکرانِ حسن و عقل کو یہ مہینہ مبارک اور آج جب ساکنانِ مغرب نے عورت کو نہ خاتون خانہ رہنے دیا ہے اور مردِ آہنگ، آج جب ذمہ داریاں دوہری اور ارادے اُڑان کے ہیں، تو ان مشکل مراحل کا ساتھی فہمیدہ ریاض کی اس نظم سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے:
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
پر تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آئے گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہوگا دیکھا جائے
یارِ سخن، زندگی بیت رہی ہے، سالہا سال لمہات کی طرح، سو کیوں نا ان لمحات کو حال میں رہ کر جی لیں! ویسے جیئں جیسے اس کا حق ہے۔ یہ یاد رکھتے ہوئے کہ یہ زندگی پہلی ضرور ہے مگر آخری نہیں۔ سو دلوں کو شفا دینے والے اس مہینے میں سوز والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا اور کبھی زندگی جینا مت بھولنا۔
آپ کا سوز